ہائی سکول کے طالب علم مایوس پائے گئے: تحقیقی سروے رپورٹ

0
3142

نصیب شاہ شینواری
خیبر ایجنسی کی تحصیل لنڈیکوتل کی جغرافیائی اہمیت و افادیت تحصیل جمرود اور باڑہ کے نسبت بہت ہی زیادہ ہے اس لیے کہ لنڈیکوتل پاک افغان بارڈر طورخم سے چند کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے جو پاکستان ،افغانستان اور جنوبی ایشیائی ممالک کے لئے ایک گیٹ وے کی حیثیت رکھتا ہے لیکن حکومتی اداروں اور یہاں پر ظلم و جبر کے انگریز دور سے نافذ قانون ایف سی آر(ٖفرنٹئیرکرائمز ریگولیشن)کی وجہ سے اس اہم علاقہ کو مسلسل نظر انداز کیا جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان بننے کے 70سال بعد بھی یہ علاقہاور یہاں کے باسی پانی اور بجلی کے علاوہ تعلیم و صحت کی بنیادی سہولیات زندگی سے محرو م ہیں۔

ہائی سکول کے طلباکا استعداد کار اور علاقائی مسائل کے متعلق ان کی معلومات اور ذہنی تقویت کو معلوم کرنے کے لئے راقم نے گزشتہ ہفتہ ایک مقامی ہائی سکول کے طلبہ کے ساتھ تبادلہ خیال کیا جس سے یہ مقصود تھا کہ یہ طلباء  علاقائی ترقی اور عوامی فلاح و بہبود کے لئے خیبر ایجنسی سے منتخب عوامی

Nasib Shah Shinwari-Freelance-                           Journalist

نمائندوں کی کارکردگی کو جانچ سکے اور وہ اس پر مختصر تبصرہ تحریر کرسکے۔ 

اس مقصد کے لئے راقم نے تحقیقی سروے کا اہتمام کیا جو دو مختصرسوالنامہ کی شکل میں سوالات پر مشتمل تھی جس میں طلباء سے دریافت کیا گیا تھا کہ کیا آ پ الحاج گروپ (ایم این شاہ جی گل آفریدی و سینیٹر تاج محمد آفریدی)کی عوامی فلاح و بہبود کے لئے کئے گئے کاموں سے مطمین ہیں؟ اگر مطمین ہیں تو بھی چند لائنز میں تحریر کریں، اگر آپ مطمین نہیں تو بھی مختصرالفاظ میں بیان کریں۔ 

اس تحقیقی سروے کے لئے پچاس (جماعت نہم )کے طلبا کا انتخاب کیا گیا اور ان طلبا میں یہ تحریری سوالنامہ تقسیم کیا گیا۔ طلبا کو ہدایات دی گئی کہ آپ سوچ کر ان سوالات کے جوابات تحریر کریں ۔ 
جب سوالوں کے جوابات تحریر کرکے طلبا ء نے راقم کو سوالنامہ واپس کیا تو اس کو چیک کرنے کے بعد جماعت نہم کے طلبا ء کی اردو میں لکھنے کی قابلیت کا بھی پتہ چلا اور راقم کو یہ بھی پتہ چلا کہ ن طلباء کو علاقائی ترقی اور مسائل کے بارے میں کتنا علم ہے اور اس کو حل کرنے کے لئے کیا مشورے دیتے ہیں۔ راقم کو معلوم ہوا کہ ہائی سکول کے بچے اردو لکھنے میں کچھ کمزور تھے جس کے لئے اس سکول کے اساتذہ کو چاہئے کہ اردو کی تدریس کے حوالہ سے ان کی اچھی رہنمائی کریں ۔

 
پچاس طلباء میں 25طلباء نے یہ تحریر کیا تھا کہ ہم الحاج گروپ کی عوامی فلاح و بہبود کے لئے کئے گئے کاموں سے مطمین نہیں ہیں۔ ایک طالب علم نے تو صرف لکھا تھا کہ ہم مطمین نہیں ہیں لیکن بہت سے طلبا نے کچھ لائنز میں تحریر کیا تھا کہ ہم کیوں مطمین نہیں ہیں۔

 
ایک طالب علم نے تو کمال کیا تھا ، طالب علم نے پشتو زبان میں تحریر کیا تھا کہ زمونگ د الحاج گروپ نہ مطمین نہ یو، الحاج وعدے کڑے وے چی زہ بہ سڑک جوڑکڑم ، بجلی بہ جوڑہ کرم خو لنڈیکوتل لہ 2018پورے رانہ غے، خلق ڈیر خفہ دی، ٹولے وعدے ی جھوٹ شوے، جس کا مطلب ہے کہ ہم الحاج شاہ جی گل افریدی و تاج محمد افریدی سے مطمین نہیں ہیں اس لئے کہ انھوں وعدے کئے تھے کہ ہم سڑک کو ٹھیک کریں گے، بجلی کا مسلہ حل کریں گے لیکن 2018تک اس نے (شاہ جی گل افریدی) نے لنڈیکوتل کا دورہ نہیں کیا، لوگ خفہ ہیں اور ان کے تمام وعدے جھوٹے نکلے۔

 
ایک دوسرے طالب علم نے تحریر کیا تھا کہ ہم الحاج گروپ کی کارکردگی سے اس لئے مطمین نہیں ہیں کہ یہ پیسے ووٹ دینے کے لئے دیتے ہیں اور روپے ثواب کی نیت سے نہیں دیتے۔ ایک نے لکھا تھا کہ یہ لوگ حکومت کی طرف سے حاصل کردہ رقم کو اپنے پاس رکھتے ہیں اور پھر الیکشن میں قریب آتے ہیں۔

 
ایک سٹوڈنٹ نے تو بہت ہی اہم مسلہ کی طرف اشارہ کرکے اپنی عدم اطمینان کو اس طرح ظاہر کیا تھا کہ الحاج گروپ نے سکولوں اور کالجز کے لئے کچھ نہیں کیا، یہاں پانی کا مسلہ ہے اور یہاں بجلی نہیں ہے۔ 
شاباس اس طالب کو اور اس کے والدین کو جس نے بہترین جواب تحریر کیا تھا، کیا لکھا تھا؟ لکھا تھا کہ میں مطمین نہیں اس لئے کہ جب ووٹ قریب آتے ہیں تو یہ لوگوں سے ملنے آتے ہیں تاکہ یہ لوگ ووٹ دے، اصل بات یہ ہے کہ جب ووٹ کا وقت نہ ہو تو کام کیوں نہیں کرتے ، ہمیں ٹیوب ویل ، پکی سڑکیں، سکول اور یونیورسٹیاں چاہئے۔

 
2018پورے لنڈیکوتل تہ رانہ غے، ایک طالب علم نے بھی اس طرح پشتو میں تحریر کیا تھا جس کا مطلب ہے کہ شاہ جی گل آفریدی 2018تک لنڈی کوتل تشریف نہیں لاسکے۔ انھوں نے وعدے کئے ،لوگوں کو دھوکے دئے اور ہم مطمین نہیں ہیں۔

 
ایک طالب علم نے اپنی احساسات اس طرح تحریر کئے تھے کہ یہ لوگ ووٹ کے وقت پیسہ خرچ کرتے ہیں، تمام لوگوں کو پیسے نہیں فلاح دو۔ ایک نے لکھا تھا کہ الیکشن قریب آتے ہی یہ لوگوں کے حجروں میں آتے ہیں، شمولیتی جلسے کرتے ہیں اور بڑے کام نہیں کرتے ۔

 
ایک نے تو بہت گلے شکوے تحریر کئے تھے، لکھا تھا کہ الحاج گروپ کے نمائندوں نے پیروخیل کا تو رخ ہی نہیں کیا ، بچے نے تحریر کیا تھا کہ اگر کوئی ووٹ نہ بھی دے پھر بھی تو ہم حقدار ہیں فلاحی کاموں کے لیکن انھوں نے پیروخیل کا رخ تک نہیں کیا۔ 

چند طلباء کی قابلیت اس طرح تھی کہ انھوں نے تحریر کیا تھا کہ الحاج گروپ نے سکولوں اور کالجوں کے لئے کچھ نہیں کیا اور یہ لوگ صرف وعدے کرتے ہیں اور پوری نہیں کرتے۔ اس طرح بھی ایک طالب علم نے لکھا تھا کہ اگر یہ لوگ دھوکے نہ دیتے تو فاٹا بہت ترقی کرتا لیکن یہ لوگ اتنے دھوکے دیتے ہیں کہ مجھے افسوس ہے۔ 

چند طلباء نے تو یہاں تک تحریر کیا تھا کہ ہمارے گاوں والوں نے انھیں ووٹ دیا تھا لیکن ابھی تک ہمارے گاوں میں ایک فلاحی کام بھی نہیں کیا ، لوگوں کو ٹرانسفارمرز چاہئے ،انٹرنیٹ بھی بند ہے ، اس کو شروع کرو۔

 
طلبا کی اکثریت نے پانی و بجلی کے مسلہ کا ذکر کیا تھا کہ ان مسائل کو حل کرنا چاہئے، بعض طلبا نے تحریر کیا تھا کہ معذور بچے جو سکول نہیں جاسکتے، ان کے لئے سکول جانے کا بندوبست کرنا چاہئے اور جو لوگ غریب ہیں ، ان کی مدد کرنی چاہئے۔ ایک نے توگلہ اس طرح کیا تھا کہ جو روپے عوامی نمائندوں کو حکومت کی طرف سے ملتے ہیں،ان روپوں کو اپنے پاس رکھتے ہیں اور جب الیکشن قریب آتا ہے تو یہ پیسے بطور رشوت لوگوں کو دیتے ہیں۔ طلبا نے تحریر کیا تھا کہ الحاج گروپ نے جو وعدے کئے ہیں،انھیں پورا کریں۔ 

تحقیقی سروے میں 17طلباء نے تحریر کیا تھا کہ ہم الحاج گروپ کی کاردگی اور عوامی فلاح و بہبود سے مطمین ہیں۔ زیادہ طلبا نے تحریر کیا تھا کہ الحاج گروپ غریب لوگوں کے ساتھ مالی امداد کرتا ہے اور لوگوں کو زکوۃ دیتے ہیں۔ طلبا نے یہ بھی تحریر کیا تھا کہ سینیٹر تاج محمد افریدی ہمارے علاقہ میں مریضوں کی عیادت کے لئے جاتے ہیں اور جب کوئی فوت ہوتا ہے تو جنازے میں شرکت کے لئے آتے ہیں۔ ایک طالب علم نے تحریر کیا تھا کہ 17اغوا افراد میں ہمارے ایک رشتہ بھی شامل تھے اور سینیٹر تاج محمد آفریدی کی کوششوں سے وہ آزاد ہوئے۔ 

تحقیقی سروے میں 4طالب علموں نے اس طرح جواب تحریر کیا تھا کہ ہم اس لئے ان کی کارکردگی سے مطمین ہیں کہ یہ غریبوں کے ساتھ مدد کرتے ہیں اور اس وجہ سے ہم غیر مطمین ہیں کہ یہ لوگ ووٹ کے لئے یہ سب کچھ کرتے ہیں جو ٹھیک کام نہیں۔ ایک نے اس طرح تحریر کیا تھا کہ انھوں نے غریبوں کے لئے کا کیا ہے اور عدم اطمینان کا اظہار اس نے اس طرح کیا تھا کہ ووٹ کو پیسوں سے خریدنا ٹھیک کام نہیں۔ 
ایک نے لکھا تھا کہ انھوں نے زکوۃ لوگوں کو دیا ہے اس وجہ سے ہم مطمین اورایک طرف ہم مطمین اس لئے نہیں کہ زیادہ کام نہیں کئے ہیں۔ ایک سٹوڈنٹ نے لکھا تھا کہ غریبوں کی خدمت کی وجہ سے ہم مطمین ہیں لیکن دوسری طرف ہم مطمین اس لئے نہیں ہیں کہ اس نے غریبوں کی مدد اس لئے کی ہے کہ یہ پھر ان کو ووٹ دے، ان کو چاہئے کہ یہ بڑا کالج بنائے اور سڑک بنائے۔عوامی فلاح و بہبود کی مناسبت سے پوچھے گئے سوالات کا 4طلبا نے واضح طور پر جواب نہیں لکھا تھا۔

 
مجھے تو ان طالب علموں کی ووٹ اور الیکشن کے متعلق جوابات بہت دلچسپ لگے اور مجھے بہت خوشی ہوئی اس لئے کہ ان بچوں کے جوابات نے مجھے اس سوچ پر مجبور کیا کہ ان طالب علموں بھی یہ سمجھ بوجھ اور احساس ہیں کہ عوامی نمائندوں کو ووٹ پیسوں سے نہیں خریدنا چاہئے اور حکومت کی طرف سے وصول عوامی فلاح و بہبود کے پیسوں کو انہی عوام کو الیکشن کے دوران بطور رشوت دینا ٹھیک کام نہیں ، بلکہ عوامی نمائندوں کو چاہئے کہ وہ زیادہ اور بلا تفریق کے عوامی فلاح و بہود کے لئے کام کریں۔ 
اللہ ہمارے ملک کے سب سیاستدانوں ، افسران اور ہم سب کو وطن عزیز اور عوام کی خدمت کا جذبہ عطا فرمائیں۔ آمین 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here