حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے پاک افغان تجارت بری طرح متاثر ہے: زاھد شینواری

0
2620
زاھد شینواری میٹ دی پریس پروگرام میں اظہار خیال کررہے ہیں۔

نصیب شاہ شینواری

لنڈیکوتل: ہمسایہ ملک افغانستان کے ساتھ ناقص تجارتی پالیسیوں کی وجہ سے تجارتی حجم ہر سال کم ہوتا جا رہا ہے، 2010 ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے پر نظر ثانی کی جائے،ملکی ترقی کے لئے درآمدات میں کمی اور برآمدات میں اضافہ کرنا ضروری ہے ،پاک افغان تاجروں کو سہولیات دینے سے پاک افغان تجارت بڑھے گی، پاک افغان تجارت بڑھنے سے یہاں بے روزگاری کا خاتمہ ہوگا، طورخم کسٹم سٹیشن کراچی پورٹ کے بعد ملک کا دوسرا بڑا مرکز ہے جہاں سے ملکی خزانے کو فائدہ ہو رہا ہے۔

ان خیالات کا اظہار سرحد چیمبر آف کامرس کے سابق صدر اور پاک افغان جوائنٹ چیمبر زآف کامرس کے ڈائر یکٹر زاہد شنواری نے لنڈی کوتل پریس کلب میں میٹ دی پریس پروگرام کے دوران کیا ۔

انھوں نے کہا کہ نئے ضم ہونے والے قبائلی اضلاع کو ٹیکس سے استثنیٰ دینے والی باتیں جھوٹ ہیں۔ زاہد شنواری نے کہا کہ پاکستا ن تحریک انصاف کی حکومت پاک افغان تجار کی بحالی اور تجارت میں بہتری لانے کے لئے سنجیدہ نہیں ہیں۔انہوں نے کہا کہ اگر حکومت ماحول سازگار بنائیں اور پاک افغان تاجروں کو سہولیات دیں تو قبائلی تاجر لاہور اور کراچی کی بجائے قبائلی اضلاع میں سرمایہ کاری کریں گے جس سے یہاں روزگار کے مواقع پیدا ہونگے اور بے روزگاری ختم ہوگی۔

زاہد شنواری نے کہا کہ خیبر پختون خوا اور قبائلی اضلاع کو برابری کی سطح پر لانے تک انضمام کا کوئی فائدہ نہیں۔ انھوں نے کہا کہ حکومت کو قبائلی اضلاع میں صنعتی زون قائم کرنے میں کوئی مشکل نہیں۔ 
سرحد چیمبر آف کامرس کے سابق صدر زاہد شنواری نے کہا کہ قبائلی علاقوں میں جہالت اور پسماندگی ختم کرانے کے لئے ضروری ہے کہ یہاں ٹاؤن شپ بنیں تاکہ یہاں کے لوگوں کو بھی صوبے کی طرح حقوق ملے اور ان کے ساتھ امتیازی سلوک نہ ہو۔

انھوں نے کہا کہ اس خطے کے لئے یہ خوشخبری ہے کہ ورلڈ بینک کے تعاون سے یہاں خیبرپاس اکنامک کوریڈورکے نام سے معاشی اور اقتصادی انقلاب آئیں گا۔ انھوں نے کہا کہ اس حوالے سے میں نے خود ورلڈ بینک حکام سے کئی میٹنگز کی ہیں ۔ انھوں نے کہا کہ حکام نے درہ آدم خیل میں صنعتی زون قائم کرنے کے لئے پہلے ہی 800میلین روپے فنڈ جاری کی ہے۔

انھوں نے کہا کہ میں نے خود حکام کو مشورہ دیا ہے کہ نئے ضم ہونے والے اضلاع میں چھوٹے چھوٹے صنعتی زون قائم کریں جس کی وجہ سے ان علاقوں میں خوشحالی کا ایک نیا دور شروع ہوگا۔ 
انہوں نے کہا کہ پاک افغان تجارتی حجم کم ہو کر نو سو میلین ڈالرز تک آگئی ہے اور مذید کمی کا خدشہ ہے اور ماضی قریب میں یہ حجم 2.5 بلین ڈالرز تھا ۔

انہوں نے کہا کہ طورخم بارڈر پر Webocسسٹم کی وجہ سے کوئی مشکل درپیش نہیں البتہ ویزہ پالیسی کی وجہ سے ضرور مشکلات پیدا ہوئیں ہیں ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کی تجارت اورکاروبار کے حوالے سے پالیسیوں کی وجہ سے افغانستان کے ساتھ تجارت نہیں بڑھ رہی۔ انہوں نے کہا کہ سابق فاٹا میں نظام کی وجہ سے بھی کئی قسم کی مشکلات درپیش تھیں اور حالات بھی سازگار نہیں تھے اس لئے جتنے بھی کاروباری لوگ اور تجارت پیشہ افراد تھے وہ یہ خطہ چھوڑ کر کرکراچی اور لاہور میں کاروبار کرنے لگے جس کی وجہ سے یہاں سے کیپیٹل فلائٹ ہو ئی اور یہاں غربت بڑھ گئی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ قبائلی علاقے سمندر اور مارکیٹ سے دور ہیں اس لئے ان علاقوں کو دس سالوں کے لئے ٹیکس فری زون قرار دئیے جائیں تاکہ یہاں صنعتی ترقی ہوسکے اور لوگ اقتصادی طور پرخوشحال ہوسکے۔ 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here