سال 2017 بھی قبائیلی صحافیوں پر بھاری گذرا

0
4115

     راحت شنواری
دنیا بھر میں سال 2017 ء میں کل 81 صحافی مارے گئے، خطرات میں اضافہ، پاکستان میں 4 صحافی مارے گئے جبکہ فاٹا میں کئی صحافیوں کو گرفتار کیا گیا ہیں۔دنیا کے ایک موقف بین الاقوامی صحافتی تنظیم کے مطابق سال 2017 ء میں مجموعی طور پر کل 81 صحافیوں کو اپنے فرائض کی انجام دہی میں مارا گیا ہیں جبکہ صحافتی شعبہ کے لوگوں کے لئے خطرات میں اضافہ ہوا ہے.

امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق انٹر نیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس کے سالانہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ان صحافیوں کو ہدف بنا کر بم دھماکوں اور کار بم دھماکوں سمیت فائرنگ کرکے مارا گیا ہے جبکہ 2017 ؁ء میں 250 سے زائد صحافیوں کو مختلف علاقوں میں قید کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے جس میں پاکستان میں وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات بھی شامل ہیں۔اگرچہ گزشتہ سال 2016 ؁ء کی نسبت سال2017 ؁ء میں کم صحافی مارے گئے ہیں لیکن ماہرین پھر بھی اس کو صحافیوں کے لئے خطرناک صورتحال قرار دے رہے ہیں کیونکہ صحافیوں کے قتل و گرفتاریوں میں معقول کمی نہیں ہوئی ہے۔سال2016 ؁ء میں دنیا بھر میں کل93 صحافی مارے گئے تھے جو کہ سال 2017 ؁ء کے مقابلے میں زیادہ ہیں تاہم سال2017 ؁ء صحافیوں کے لئے خطرات سے خالی نہیں رہا اور میڈیا کے لوگوں کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

Rahat Shinwari(Feature Writer, Correspondent)

رپورٹ کے مطابق صحافیوں کی سب سے زیادہ ہلاکتیں میکسیکو میں ہوئی ہیں جبکہ متعدد صحافیوں کو افغانستان، عراق اور شام میں جنگ زدہ علاقوں میں بھی مارا گیا ہے۔آئی ایف جے کے صدر فلپ لیروتھ کا کہنا ہے کہ اگر چہ ہلاکتوں میں کمی واقع ہوئی ہیں لیکن صحافت کے خلاف تشدد کی سطح اب بھی ناقابل قبول حد تک بلند ہے۔ان کے مطابق آئی جے ایف کو یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ صحافیوں کے قتل میں یہ کمی کسی حکومت کے اقدامات کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ فطری طور پر ایسا ہوا ہے جو کہ افسوس ناک ہے اور کسی بھی حکومت نہیں صحافیوں کی حفاظت اور جرائم کے خاتمے کے لئے کوئی موئثر اقدامات نہیں کئے ہیں۔
مارے جانے والے صحافیوں میںآٹھ خواتین صحافی بھی شامل ہیں جبکہ یورپی ملک مالٹا اور دنمارک میں بھی صحافیوں کو مارا گیا ہے۔آئی ایف جے نے متنبہ کیا ہے کہ غیر معمولی تعداد میں صحافیوں کو مختلف ممالک میں جیل میں ڈالا گیا ہے جبکہ بہت سے صحافی اپنی حفاظت کے لئے گھر چھوڑنے پر بھی مجبور ہوگئے ہیں اور اب تک صحافیوں کے قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا گیا ہے جو کہ تشویش ناک ہے۔تنظیم کے اعداد و شمار کے مطابق سال 2017 ؁ء میں میکسیکو میں13، افغانستان میں11،عراق میں 11،شام میں10،بھارت6،فلپائن4، پاکستان میں4،نائجیریا میں3،صومالیہ اور ہونڈارس میں بھی تین تین صحافیوں کو قتل کیا گیا ہے۔

پاکستان میں اگر گزشتہ سال زیادہ صحافیوں کو تو قتل نہیں کیا گیا ہے تاہم بہت زیادہ صحافیوں کو مشکلات کا سامنا ضرور کرنا پڑا ہے جس میں دھمکیوں سے لیکر گرفتاریاں شامل ہیں جبکہ یہ بات قابل ذکر ہے کہ نائن الیون سے لیکر اب تک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں قبائلی صحافیوں نے دی ہے اور 15صحافیوں نے جام شہادت نوش کیا ہے جبکہ متعدد صحافیوں کو مختلف حیلوں بہانوں سے نہ صرف گھروں سے اٹھایا گیا ہے بلکہ ان ذہنی طور پر اذیت بھی دی گئی ہے۔سال2017 ؁ء میں خیبر ایجنسی ، جنوبی وزیرستان ایجنسی ، باجوڑ ایجنسی اور شمالی وزریستان ایجنسی سے تعلق رکھنے والے آٹھ سے زیادہ صحافیوں کو دھمکیاں بھی ملی ہے اور ان کو گرفتار کرکے جیل میں بھی ڈالا گیا ہے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ قبائلی صحافیوں کو عسکریت پسندوں اور فورسز دونوں کی جانب سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے کیونکہ متعدد صحافیوں کو سرحد کے اس پار یعنی افغانستان سے ٹیلی فون کالز کے ذریعے دھمکیاں ملی ہیں جس کی وجہ سے سیکورٹی فوسرز نے ان کو تفتیش کی غرض سے پریشان کیا ہے۔نومبر 2017 ؁ء میں ایک کار ریلی کے دوران لنڈی کوتل سے تعلق رکھنے والے قبائلی صحافیوں کی گاڑی میں عسکریت پسندوں نے بم نصب کیا تھا جس کے بعد سیکورٹی فوسرز نے چار مقامی صحافیوں کو تفتیش کی غرض سے حراست میں لیا تھا اور ان میں سے ایک صحافی خلیل جبران کو کئی دنوں تک ذہنی اور جسمانی ازییت دی گئی تھی اور پھر قبائلی اور پشاور کے صحافیوں کی جانب سے احتجاج کے بعد ان کو رہا کر دیا گیا۔قبائلی صحافیوں نے مطالبہ کیا ہے کہ جب بھی سیکورٹی فوسرز کو معلومات مطلوب ہو تو ان کو باعزت طریقے سے بلایا کرے نہ کہ ان کے ساتھ مجرموں جیسا سلوک کیا جائے۔اس بات میں کوئی شک و شعبہ نہیں ہے کہ پاکستان میں صحافیوں کے لئے سب سے زیادہ خطرناک جگہ فاٹا یعنی قبائلی علاقہ جات ہیں لیکن ان سب مشکلات اور خطرات کے باوجود قبائلی صحافی جان کا نذرانہ پیش کرکے رپورٹنگ کر رہے ہیں اور غریب قبائلی عوام کی خدمت کر رہے ہیں اس لئے حکومت کو چاہئے کہ وہ قبائلی صحافیوں کی مشکلات کو حل کرے اور ان کو ملک کے دیگر صحافیوں کی طرح مراعات دے تاکہ ان کے فیملی ممبرز کو تھوڑا سا ریلیف ملے۔دوسری طرف یہ بات بھی انتہائی افسوس ناک ہے کہ اب تک شہید ہونے والے قبائلی صحافیوں کے اہل خانہ کے ساتھ سرکاری سطح پر کوئی خاطر خواہ مدد نہیں کی گئی ہے جس کی وجہ سے متعدد قبائلی صحافیوں کے یتیم ہونے والے بچے بے یار و مددگار ہیں اس لئے حکومتی ادارے اور بین الاقوامی صحافتی تنظیمیں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شہید ہونے والے قبائلی صحافیوں کء یتیم بچوں کی مالی مدد کرے تاکہ ان کی پرورش بہتر طریقے سے ہو سکے۔اس ضمن میں ٹرائبل یونین آف جرنلسٹس نے اپنی مدد آپ کے تحت کاروائی ضرور کی ہے لیکن وہ ناکافی ہے کیونکہ ٹے یوجے کے پاس اتنے وسائل نہیں ہے کہ وہ ان سے ان پندرہ شہید قبائلی صحافیوں کے بچوں کی مزید مدد کرے اس لئے سرکاری اور نیم سرکاری اداروں سمیت علامی صحافتی تنظیموں کو اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here