لنڈیکوتل کی صحافیوں کا سیاہ دن

0
3263
Nasib Shah Shinwari-Freelance Journalist

تحریر: نصیب شاہ شینواری 
لنڈیکوتل: 24نومبر 2017 لنڈی کوتل کی صحافیوں کے لئے ایک سیاہ دن کے طور پر یاد کیا جائے گا اس لئے کہ ایک طرف تو مقامی صحافی اور خیبر نیوز ٹی وی کے رپورٹر خلیل آفریدی اور ان کے صحافی دوستوں کو اللہ تعالی نے بچالیا جب ان کے کار کے نیچے نصب بم خوش قسمتی سے پھٹ نہ سکا اور اس طرح یہ صحافی بھائی ایک بڑے حادثہ سے بچ گئے، ایک طرف تو ان صحافیوں کو اللہ تعالی نے بچالیا لیکن دوسری طر ف انہی صحافیوں نے موت کو اور بھی قریب سے دیکھ لیا جب اسی بم کے متعلق تحقیقات کی وجہ سے انہیں دوران تفتیش بد ترین ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا لیکن خوش قسمتی سے اللہ تعالی نے ان

صحافیوں کو بھی تحقیقاتی ٹارچر سیل سے زندہ نکال لیا۔

اس سیا ہ دن کی ابتداء کچھ اس طرح ہے کہ لنڈی کوتل پریس کلب انتظامیہ کو خیبر رائفلز فورس کے نمائندے سے ایک دن پہلے اطلاع ملی کہ کل جو صحافی آٹھویں وینٹیج اینڈ کلاسک کار ریلی کی کوریج کرنا چاہتے ہیں وہ اپنے نام اور موٹر کار نمبر بھیج کر رجسٹریشن کریں تاکہ کار ریلی کے دوران ان کو آسانی ہواور وہ ریلی کا کوریج آسانی سے کرسکے۔ راقم بھی صبح کے تقریبا 11بجے پریس کلب پہنچا جب کہ خیبر رائفلزفورس اہلکاروں کی اطلاع کے مطابق دن کے تقریبا 12بجے کار ریلی کو طورخم مچنی چیک پوسٹ پہنچنا تھا ۔

راقم اپنے دوست اور دی نیوز کے رپورٹر اشراف الدین پیرزادہ کے ساتھ صحافی اور روزنامہ جنگ کے نمائندے نورست خان آفرید ی کے ساتھ ان کی کار میں مچنی کی طرف روانہ ہوگئے جبکہ خلیل آفریدی رپورٹر خیبر نیوز ٹی وی اپنے کار میں بیٹھ کر چروازگئی کی طرف چل پڑے تاکہ وہاں کار ریلی کی میڈیا کوریج کرسکے۔ ان کے ساتھ ہمارے دوست فرہاد شینواری، نمائندہ مشال ریڈیو، محراب شاہ افریدی نمائندہ ٹرائبل نیوز نیٹ ورک، حضرت عمر شینواری کیمرہ مین خیبر نیوز اورعمران بھی موٹر کار میں سوار تھے۔

مقامی صحافی میاں ساجد کے مطابق وہ چروازگی میں خاصہ دار فورس کے صوبیدار لاہوری کے ساتھ سڑک کے کنارے بیٹھے تھے کہ اس دوران خلیل افریدی کی موٹر کار ان کے سامنے سے گزر گئی، میاں ساجد نے راقم کو بتایا کہ جب ہم نے ان کے کار کے پیچھے دیکھا تو خلیل افریدی کی کار کے نیچے کچھ تار لٹکتے دیکھ کر میں نے فوری طور پر خلیل آفریدی کا موبائل نمبر ملایا اور انھیں کہا کہ کار کے نیچے کچھ لٹکتی تاریں نظر آرہی ہیں، ا س دوران خلیل آفریدی نے جلدی کار کو روک کر اپنے ساتھیوں سے کہا کہ کار کے نیچے کچھ گڑبڑ ہے ،اس نے کار کو روڈ کے ایک طرف کھڑا کرکے تما م ساتھیوں کو جلدی اترنے کا کہا اور قریب کھڑے سیکوریٹی فورس کے اہلکاروں کو کہا کہ ہماری گاڑی کو چیک کریں۔
جونہی ہم مچنی پہنچ گئے ہمیں اطلاع ملی کہ خیل آفریدی کے کار کے نیچے نامعلوم افراد نے بم نصب کیا تھا لیکن خوش قسمتی سے بم پھٹ نہ سکا۔ تمام ساتھی بہت پریشان ہوگئے لیکن ساتھ اللہ تعالی کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا کہ بم پھٹ نہ سے اور تما م صحافی بھائیوں کی زندگیاں بچ گئی۔
سیکوریٹی اہلکاروں نے فوری طور پر بم ڈسپوزل سکواڈ کو بلا لیا ، سیکوریٹی فورسز اور بم ڈسپوزل سکواڈ کے مطابق جو بم کار کے نیچے نصب کیا گیا تھا کافی طاقتور تھا جو موٹر کار کو تباہ کرسکتا تھا، ذرائع کے مطابق یہ ریموٹ کنٹرل بم تھا اور ریموٹ کو دبایا گیا بھی تھا لیکن ان صحافی بھائیوں کی ماوں اور خاندان والوں کی دعائیں تھی کہ ریموٹ کنٹرل دبانے کے باوجود یہ بم پھٹ نہ سکا اور اسطر ح ہمارے صحافی برادران ایک بڑے حادثہ سے بچ گئے۔
اس دوران سیکوریٹی فورسز خلیل آفریدی، فرہاد شینواری،محراب شاہ آفریدی،حضرت عمر شینواری اور عمران کو اپنے ساتھ لنڈی کوتل آرمی چھاونی لے گئے تاکہ ان سے کار کے نیچے بم کے متعلق تفتیش کرسکے۔ پریس کلب میں کچھ ساتھیوں نے سیکوریٹی فورس کے اہلکاروں سے رابطہ کرکے حراست میں لئے گئے اپنے ساتھیوں کے متعلق پوچھا تو جواب ملا کہ جلدی کچھ ضروری سوالات اور واقعہ کی نوعیت کے متعلق ان سے کچھ پوچھ گچھ کی جائے گی اور انھیں جلد رہا کیا جائے گا
شام کے قریب پریس کلب کے آفس بوائے حسن علی کو بھی سیکوریٹی اہلکاروں نے آرمی کیمپ بلایا اور اس کے چند منٹ بعد مقامی صحافی میاں ساجد کو بھی ایک ٹیلیفوں موصول ہوئی کہ آپ بھی آرمی چھاونی آجائے ، ساجدمیاں کی طرح خاصہ دار فورس کے اہلکارلاہوری کو بھی سیکوریٹی فورس افسران نے بلایاتھا تاکہ بم کے متعلق ان سے پوچھ گچھ کی جاسکے، ان افراد نے کار کے نیچے بم کو دیکھا تھا اس لئے انھیں بلایا گیا تاکہ بم کے متعلق ابتدائی معلومات اکٹھا کی جاسکے۔
سیکوریٹی خدشات اور ان افراد کی زندگیوں کو مزید خطرات سے بچنے کے لئے جو معلومات یہاں درج کی گئی ہیں ان کے نام یہاں ذکر نہیں کئے جائیں گے۔
ان افراد کو حراست میں لے کر جب کیمپ کے اندر لے جایا گیا تو ان کو ایک سخت کپڑے کی ٹوپیاں پہنائی گئی اورحراست میں لئے گئے ان صحافی حضرات کو ایک دوسرے کے ساتھ بات کرنے کی بھی اجازت نہیں تھی، ان میں سے ایک صحافی نے ٹوپی پہننے سے بھی انکار کیا تھا لیکن وہاں پر موجود سیکوریٹی اہکار کی دھمکی اور سخت لہجے کی وجہ سے اس صحافی کو بھی وہ سخت ٹوپی پہنائی گئی۔ حراست میں لئے گئے صحافیوں کے ساتھ انتہائی سخت لہجے میں بات کی گئی اور انھیں غلیظ گالیاں بھی دی گئی۔ ان میں سے دو افراد کو انتہائی سخت سزاد ی گئی اور ٹارچر سیل میں سزا دینے کے وقت باہر دوستوں نے بھی ان کی فریاد اور چیخیں سنی۔ سیکوریٹی اہلکاروں نے ان باعزت اور پر امن صحافیوں کو غلیظ گالیاں بھی دی اور ان کو خاموش رہنے کا مشورہ بھی دیا گیا۔
یہاں میں یہ ذکر مناسب سمجھوں گا کہ ابھی کچھ ہی دن پہلے ہماری ملاقات کمانڈنٹ خیبر رائفلز کرنل فرخ ہمایون سے ہوئی تاکہ اگر کوئی مقامی صحافی کسی حساس نوعیت کے رپورٹ کو پرنٹ میڈیا یا الیکٹرانک میڈیا پر شائع کرنا چاہے تو سیکورٹی اہکاروں کے ساتھ رابطہ کرکے اس رپورٹ کو شائع کیا جاسکے تاکہ علاقائی امن و امان کو کوئی ٹھیس نہ پہنچ سکے۔
سیکوریٹی اداروں کے ساتھ لنڈی کوتل پریس کلب کے تما م ممبرز کا مکمل ریکارڈ موجود ہیں اور صحافتی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوے لنڈیکوتل کی مقامی صحافیوں نے انتہائی ذمہ دارانہ رپورٹنگ کی ہے لیکن اس کے باوجود صحافیوں کو قاتلوں اورمجرموں کی طرح حراست میں لینا ، انھیں ٹارچر سیل میں رکھنا،انھیں سخت ذہنی اور جسمانی سز ا دینا ، یہ ایسی بدترین پالیسیاں ہیں جس کی وجہ سے ملکی ادارے اور سیکوریٹی اہلکاروں کے ساتھ نفرت اور بھی بڑھے گی۔
خلیل افریدی اور پریس کلب کے آفس بوائے حسن علی شینواری کے علاوہ ہمارے چار ساتھیوں کو تو ٹارچر سیل سے اگلی صبح دو بجے رہائی ملی لیکن خلیل آفریدی اور حسن علی شینواری تقریبا ایک ہفتہ سیکوریٹی اہلکاروں کی حراست میں تھے۔ خلیل آفریدی کے متعلق سیکوریٹی اہکاروں کا کہنا تھا کہ چونکہ خلیل آفریدی کی جان کو خطر ہ ہے ، اس لئے یہ ہمارے ساتھ چند دن محفوظ ہونگے۔
صحافیوں کو بدترین جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا یہاں تک کہ حراست میں لئے گئے ان کے دوسرے صحافی دوست ان کی چیخیں بھی سن رہے تھے جس کی وجہ سے ان کی دوستوں کی چیخیں ان کے لئے ذہنی دبا اور پریشانی کا سبب بنے اور انھوں نے اپنے آپ کو موت کے قریب پایا ۔
واضح رہے کہ خلیل افریدی نے سیکوریٹی اداروں کو بتایا تھا کہ مجھے ایک کال آئی ہے جس میں مجھے سخت دھمکیا ں ملی ہیں۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے اگر خلیل افریدی نے سیکوریٹی فورس کو اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعہ سے خبردار کیا تھا تو پھر کوئی جواز نہیں تھا کہ انھیں بدترین ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بناتے ۔
ایک مقامی صحافی آدھی رات فورسز کی حراست میں رہ کر کمر اور پاوں میں شدید درد محسوس کررہا تھا اور جب انھوں نے کوئی دوا مانگی تو انھیں کو ئی دوا فراہم نہیں کی گئی اورجب انھیں چار دوسرے ساتھیوں کے ساتھ آدھی رات رہا کیا گیا تو اگلے دن ان کی تکلیف بڑھ گئی یہاں تک کہ انھیں پشاور کے ہسپتال میں بھی داخل کیا گیا۔ ڈاکٹرز نے میاں ساجد کو کہا تھا کہ بدترین ذہنی تشدد اور پریشانی کی وجہ سے ان کی بیماری میں اضافہ ہوا اور انھیں مکمل آرام اور علاج کی ضرور ت ہے جس کی وجہ سے وہ کچھ دن ہسپتال میں زیر علاج تھے ۔
ان صحافیوں کی رہائی کیوں اور کیسی ممکن ہوئی؟ لنڈیکوتل پریس کلب میں خیبر ایجنسی کی صحافیوں کی ایک ہنگامی ملاقات ہوئی جس میں صحافیوں پر تشدد اور بلاجواز گرفتاری پر سخت تنقید کی گئی، اسی میٹنگ میں خیبر رائفلز فورس کی ہرقسم کوریج سے مکمل بائکاٹ کیا گیا اور فاٹا کے تمام پریس کلبوں کو ہدایات جاری کی گئی کہ صحافیوں پر تشدد او ر بلاجواز گرفتاری کے خلاف پریس کلب عمارتوں پر سیاہ جھنڈیں لہرائیں۔ اگلے روز ہی فاٹا اور پشاور کی صحافتی تنظیموں نے لنڈیکوتل کی صحافیوں پر بلاوجہ تشدد اور گرفتاری کے خلاف ایک اختجاجی مظاہر ہ کیا جس میں فاٹا اور پشاوراور بین الاقوامی میڈیا اداروں کے ساتھ کام کرنے والے صحافیوں نے شرکت کی۔
اردد زبان کی میڈیا تنظیموں وائس آف امریکہ اور بی بی سی نے لنڈیکوتل کے صحافیوں پر کئے گئے ظلم پر اپنی بہترین رپورٹ شائع کئے جنھیں فاٹا کی صحافیوں نے بہت سراہا اور انھیں رپورٹنگ، اختجاجی مظاہروں اور صحافیوں کی اتحاد رنگ لائی اور صحافی خلیل آفریدی کو چار دن حراست کے بعد رہا کیا گیا جبکہ پریس کلب کے سیکرٹری حسن علی افریدی کو 12دن بعد رہا کیا گیا۔

لنڈیکوتل کی صحافیوں نے ہمیشہ علاقائی مسائل کو بہت مثبت انداز میں پیش کیا ہے تاکہ ارباب اختیار ان مسائل کو حل کرنے کے لئے مناسب اقدامات کریں لیکن مثبت رپورٹنٹگ کے برعکس ان صحافیوں کو بد ترین ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنانا صحافیوں اور صحافت کی مقدس پیشے کے ساتھ ظلم اور ناانصافی ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here