تحریر: اشرف الدین پیرزادہ
لنڈی کوتل:خیبر رائفلز کے ہیڈ کوارٹر لنڈی کوتل میں ایک اہم قبائلی جرگہ منعقد ہوا، جس میں سلطان خیل قبیلے کے عمائدین اور بااثر شخصیات نے شرکت کی۔ جرگے میں عسکریت پسندوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں اور خطے میں بگڑتی ہوئی امن و امان کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا گیا، اور سیکیورٹی فورسز سے مکمل تعاون کا وعدہ کیا گیا۔
یہ جرگہ خیبر رائفلز کے کمانڈنٹ کی ہدایت پر بلایا گیا، جس میں فوج، سول انتظامیہ اور پولیس کے اعلیٰ حکام شریک ہوئے۔ جرگے کا انعقاد سلطان خیل اور گرد و نواح میں مشکوک افراد کی نقل و حرکت میں اضافے اور سیکیورٹی خطرات کی اطلاعات کے بعد کیا گیا۔ سیکیورٹی حکام نے خبردار کیا کہ دہشت گرد عناصر کی موجودگی اور انہیں ممکنہ سہولت فراہم کیا جانا علاقائی اور قومی استحکام کے لیے شدید خطرہ ہے۔
جرگے میں قبائلی عمائدین نے سیکیورٹی اداروں پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا۔ انہوں نے دہشت گردی کی بھرپور مذمت کی اور اعلان کیا کہ ریاست مخالف عناصر کی حمایت کرنے والے افراد کا سماجی بائیکاٹ کیا جائے گا۔ عمائدین نے واضح کیا کہ سلطان خیل قبیلہ اپنی سرزمین کو کسی بھی تخریبی سرگرمی کے لیے استعمال نہیں ہونے دے گا اور امن و امان کے تحفظ کے لیے متحد ہو کر کھڑا رہے گا۔
یہ جرگہ ایسے وقت میں منعقد ہوا ہے جب ضلع خیبر میں سیکیورٹی صورتحال پر عوامی خدشات میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ 2018 میں سابقہ فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد چند سال تک علاقہ نسبتاً پُرامن رہا، مگر اب ایک بار پھر عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں میں اضافے کے آثار نمایاں ہو رہے ہیں۔ تیراہ، باڑہ، جمرود اور لنڈی کوتل سمیت مختلف علاقوں میں سرحد پار سے دراندازی، سلیپر سیلز کی بحالی اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات رپورٹ ہو رہے ہیں۔
مقامی باشندوں نے رات کے وقت مسلح گروہوں کی نقل و حرکت، بھتہ خوری اور دھمکیوں کے بڑھتے ہوئے واقعات پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ بیشتر لوگ جوابی کارروائی کے خوف سے مشکوک سرگرمیوں کی اطلاع دینے سے گریزاں ہیں، جس سے سیکیورٹی اداروں کے لیے مؤثر ردعمل دینا مشکل ہو گیا ہے۔ اگرچہ ماضی کے آپریشنز نے دہشت گردوں کے بنیادی ڈھانچے کو متاثر کیا تھا، تاہم انضمام کے بعد گورننس اور فالو اپ پالیسیوں میں خلا نے بعض نیٹ ورکس کو دوبارہ فعال ہونے کا موقع دیا ہے۔
جرگے کے دوران عمائدین نے سیکیورٹی اداروں کو آگاہ کیا کہ موجودہ صورتحال میں سب سے زیادہ غیر محفوظ طبقہ مقامی صحافی برادری ہے، جنہیں نہ صرف عسکریت پسندی پر رپورٹنگ کے باعث دھمکیاں دی جا رہی ہیں بلکہ ریاستی تحفظ کی عدم دستیابی کے باعث بعض صحافیوں کو علاقہ چھوڑنے پر بھی مجبور ہونا پڑا ہے۔ حفاظت اور قانونی تحفظ نہ ہونے کی وجہ سے متعدد صحافی خود ساختہ سنسرشپ پر مجبور ہو چکے ہیں، جس سے عوام کے لیے درست معلومات تک رسائی محدود ہو گئی ہے۔
سول سوسائٹی اور تجزیہ کاروں نے متعدد بار خبردار کیا ہے کہ اگر فوری طور پر گورننس کو مضبوط نہ کیا گیا، انٹیلی جنس شیئرنگ میں بہتری نہ لائی گئی اور کمزور طبقات کے تحفظ کو یقینی نہ بنایا گیا، تو قبائلی علاقے ایک بار پھر تشدد کی لپیٹ میں آ سکتے ہیں۔ سلطان خیل قبیلے کا یہ جرگہ اس بات کا ثبوت ہے کہ قبائلی جرگے دہشت گردی کے خلاف کمیونٹی کو متحرک کرنے اور امن کے قیام میں ایک بار پھر کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔
جرگہ سیکیورٹی اداروں اور قبائلی عمائدین کے درمیان اتحاد، چوکسی اور تعاون کے پختہ عزم کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔ سیکیورٹی حکام نے مقامی حمایت کو سراہتے ہوئے مشترکہ کوششوں کے تسلسل پر زور دیا، جبکہ دونوں فریقوں نے عسکریت پسندوں اور ان کے سہولت کاروں کو علاقے میں پناہ نہ دینے کے لیے قریبی رابطے میں رہنے پر اتفاق کیا۔