بیورو رپورٹ:
پشاور: 0 پشاور اور گرد و نواح میں دہشت گردی کے ممکنہ خطرات کے حوالے سے حساس اداروں نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ انٹیلیجنس اطلاعات کے مطابق افغانستان سے تعلق رکھنے والے دہشت گرد گروہوں کی دراندازی اور حملوں کی منصوبہ بندی کے شواہد سامنے آئے ہیں۔
ذرائع کے مطابق، FAK گروپ سے وابستہ 5 سے 6 دہشت گردوں پر مشتمل ایک دہشت گرد گروہ، جو ہجرت اور مفتی ذکریا گروپ سے منسلک ہے، افغانستان سے داخل ہو کر میدانک، جمرود ضلع خیبر (KTD) کے علاقے میں موجود ہے۔ اس گروہ کی شمولیت کے بعد وہاں سرگرم دہشت گردوں کی تعداد بڑھ کر 13 سے 15 ہو چکی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ گروہ کمانڈر اسد کامران عرف پنجابی اور مفتی ذکریا/سلمان سے رابطہ بحال کرنے اور دہشت گردی کی مشترکہ کارروائیوں کی تیاری میں مصروف ہے۔
دہشت گردوں کے منصوبوں میں خودکش حملے (SB)، فائر ریڈز، ٹارگٹ کلنگ اور سنائپر فائر شامل ہیں۔ ان کے ممکنہ اہداف میں ضلع خیبر تحصیل جمرود میں واقع پمپ ہاؤس، ایف سی و پولیس چوکیاں (خصوصاً شاہگئی کے علاقے میں) اور ایک غیر شناخت شدہ ہدف شامل ہے، جو ملاگوری تا ورسک روڈ کے درمیان واقع ہو سکتا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ گروہ نے 23 افراد کی ٹارگٹ کلنگ کی فہرست تیار کر رکھی ہے جن میں سے ایک واقعہ 6 اگست کو ہو چکا ہے۔ مزید حملے ورسک روڈ اور ارد گرد کے علاقوں میں متوقع ہیں۔
انٹیلیجنس ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ ایک ممکنہ خودکش حملہ آور، جو مبینہ طور پر آذربائیجان کا شہری ہے، کو ISKP کی جانب سے باڑہ سے پشاور منتقل کیا گیا ہے، جسے بورڈ بازار کے علاقے میں دیکھا گیا ہے۔ سیکیورٹی اداروں کا ماننا ہے کہ یہ قیام عارضی ہے اور مزید خطرے کی علامت ہے۔
اسی دوران، FAK کے مزید 6 دہشت گرد (جن میں 2 کم عمر لڑکے شامل ہیں) کی شکرانبو میں موجودگی کی بھی تصدیق ہوئی ہے، جنہوں نے سلمان عرف صدیق گروپ سے الحاق کر لیا ہے۔ اس علاقے میں دہشت گردوں کی مجموعی تعداد 28 سے 33 تک پہنچ گئی ہے۔
ان تمام اطلاعات کی روشنی میں سیکیورٹی اداروں کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ ضلع خیبر، پشاور، تھانہ متنی، بڈھ بیر، انقلاب، ارمڑ، حسن خیل اور گرد و نواح میں ہائی الرٹ رہیں اور حفاظتی اقدامات مزید سخت کیے جائیں تاکہ کسی بھی ممکنہ حملے کو بروقت روکا جا سکے۔