نصیب شاہ شینواری
دھشت گردی کے خلاف جنگ میں جہاں پاکستانی اداروں اور سیکوریٹی فورسز کو مالی وجان نقصان اٹھانا پڑا اسی طرح اس جنگ میں قبائلی عوام نے بھی ہزاروں کی تعداد میں جانوں کی قربانی پیش کردی ہے اور اب تک ان قربانیوں کا سلسلہ جاری ہے۔
عبد الرحیم شینواری سکنہ پیروخیل لنڈیکوتل 9نوسالہ ایک ننھا سا بچہ تھا اور ایک نجی سکول کے پرائمری سکول میں پڑھتا تھا، عبد الرحیم شینورای کے والد نواز کے مطابق وہ بہت ذہین تھا اور اپنے کلاس کے ٹاپ تین پوزیشن ہولڈرز بچوں میں ایک تھا۔
والدین کو بچے بہت ہی عزیز ہوتے ہیں ، بالکل اسی طرح عبد الرحیم شینواری بھی اپنے ماں باپ کو بہت پیارا تھا لیکن ان کے والدین کو کیا پتہ کہ یہ پیارا بچہ بہت جلدی ان کا ساتھ چھوڑ دینے والا ہے۔
25جولائی 2014کی شام تھی اور رمضان المبارک کا آخری عشرہ تھا جب عبد الرحیم شینواری اس فانی دنیا
سے چلے گئے، کس طرح وہ موت کی منہ میں چلے گئے ، یہ بہت دردناک کہانی ہے، عبد الرحیم شینواری کے والد کا لنڈیکوتل میں ایک چھوٹا سا دوکان ہے جو ان کے خاندان کا وسیلہ رزق و روزگار ہے۔
اسی دن عبد الرحیم نے اپنے والد کے ساتھ ضد کیا تھا کہ میں بھی بازار جاوں گا اور اسی طرح باپ نے اپنے
