صحافیوں کا ساتھی کے قتل کی جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ

0
60

تحریر: اشرف الدین پیرزادہ
لنڈی کوتل:صحافی خلیل جبران کی پہلی برسی کے موقع پر مقامی صحافی برادری نے ان کے بہیمانہ قتل کی تحقیقات پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ اس واقعے کی جوڈیشل انکوائری کرائی جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ پولیس کی جانب سے درج کی گئی ایف آئی آر میں حقائق کو مسخ کیا گیا ہے، جو انصاف کے راستے میں بڑی رکاوٹ ہے۔

لنڈی کوتل کے جرگہ ہال میں منعقدہ تعزیتی سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ٹرائبل یونین آف جرنلسٹس (TUJ) کے سابق صدر قاضی فضل اللہ، عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما ملک دریا خان آفریدی، طورخم کسٹمز کلیئرنگ ایسوسی ایشن کے صدر مجیب شنواری، تحصیل چیئرمین شاہ خالد شنواری اور دیگر مقررین نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ نہ صرف خلیل جبران کے یتیم بچوں کے تحفظ کو یقینی بنائے، بلکہ صحافیوں کی مالی و جانی سیکیورٹی کے حوالے سے بھی فوری اور مؤثر اقدامات کرے۔

اس موقع پر مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین، مقامی عمائدین، سماجی کارکنوں، سول سوسائٹی کے نمائندوں اور بلدیاتی اداروں کے نمائندوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔

قاضی فضل اللہ نے اظہارِ افسوس کرتے ہوئے کہا کہ 2005 سے اب تک قبائلی اضلاع میں ٹی یو جے سے وابستہ 19 صحافی قتل ہو چکے ہیں، لیکن بدقسمتی سے کسی ایک کیس میں بھی نہ تو مجرم گرفتار ہوا اور نہ ہی کوئی مؤثر تحقیقات سامنے آئی ہیں۔

انہوں نے یاد دلایا کہ خلیل جبران کو 17 جون 2024 کو لنڈی کوتل کے علاقے سلطان خیل میں نامعلوم عسکریت پسندوں نے فائرنگ کر کے شہید کر دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ پولیس اسٹیشن میں ایف آئی آر درج کی گئی، لیکن اس میں حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا، جس سے انصاف کی توقع مزید معدوم ہو گئی ہے۔

صحافیوں کا کہنا تھا کہ قبائلی علاقوں میں کام کرنے والے صحافی گزشتہ دو دہائیوں سے آزادیِ صحافت کے تحفظ کی جنگ لڑ رہے ہیں، اور وہ سچائی و احتساب کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ دے رہے ہیں۔

مقررین نے خلیل جبران کے قتل کی تحقیقات میں تاخیر پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے الزام لگایا کہ پولیس ایک سال گزرنے کے باوجود قاتلوں کی نشاندہی اور گرفتاری میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔

انہوں نے خلیل جبران کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ نہ صرف ایک بہادر صحافی تھے بلکہ امن، ترقی، تعلیم (خصوصاً بچیوں کی تعلیم) اور ماحولیاتی تحفظ کے لیے بھی سرگرم ایک بے لوث سماجی کارکن تھے، جنہوں نے اپنی کمیونٹی کے محروم طبقے کے لیے آواز بلند کی اور تمام خطرات کے باوجود صحافتی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے اپنی جان قربان کر دی۔

مقررین نے اس عزم کا اظہار کیا کہ خلیل جبران کے مشن کو جاری رکھنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
ساتھ ہی انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ انضمام شدہ اضلاع میں صحافیوں کو فول پروف سیکیورٹی فراہم کی جائے، اور گزشتہ دو دہائیوں کے دوران قتل ہونے والے دیگر 19 صحافیوں کے مقدمات میں بھی پیش رفت کی جائے، جو اب تک متعلقہ اداروں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت بنے ہوئے ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here